ایک کتاب اور اس کا ایک عاشق
کَل کتاب کا عالمی دن تھا اور اس مناسبت سے کتاب سے محبت کرنے والوں نے کتاب پر لکھے گئے خوبصورت اشعار، پیرگرافس، تراجم، تاثرات، مطالعاتی سفر اور اپنی اور اہل علم کی پسند کی کتابوں کا تذکرہ بڑی محبت سے کیا۔
مجھے عربی ادبیات کے ایک جلیل القدر امام ، ابو علی القالی کے وہ اشعار یاد آ رہے ہیں جو انہوں نے ایک کتاب کی محبت میں اور بہت اندوہ کے عالم میں کہے تھے۔
ان اشعار کا پس منظر یہ ہے کہ ابو علی القالی کے پاس اپنے استاد ، امامِ لغت و ادب، ابنِ دُرَید کی شہرہ آفاق کتاب ‘جَمْهَرَةُ اللغة’ کا ایک نسخہ تھا جو ان کو بہت عزیز تھا۔ ایک بار فقر و فاقہ نے یہ حال کر دیا کہ ابو علی القالی وہ نسخہ امامِ ادبیات، شریف رضی کے ہاتھ فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ابو علی القالی نے کتاب کو بیچتے وقت اس کی پشت پر بوجھل دل کے ساتھ کچھ اشعار لکھے اور خریدار کے حوالے کر دی ۔ اشعار کی ٹوٹی پھوٹی ترجمانی کچھ یوں ہو سکے گی:
بیس برس تک
اس کتاب سے
مجھے انس حاصل رہا
اور اب میں نے اسے بیچ دیا ہے
جس کے بعد
ایک طویل عرصے تک
میری وارفتگی
اور زار زار رونے کا سلسلہ جاری رہے گا
میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا
کہ اس کتاب کو بیچوں گا
اگرچہ مجھے میرے قرضے
حبسِ دوام میں جکڑ دیتے
لیکن غربت اور محتاجی
اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے سبب
کہ جن پر میرے آنسو بہتے ہیں
میں نے اسے بیچ دیا ہے
سو جب میرا گریۂ مسلسل
نہیں رکے گا
تو میں وہی بات کہوں گا
جو کوئی بھی زخم خوردہ دل
اور غمگین طبع کہتا ہے
کہ اے اُمِ مالک!
کبھی کبھی ضرورتیں
ایسی عمدہ شے سے بھی محروم کر دیتی ہیں
جن کے معاملے میں
آدمی بخیل ہوتا ہے!
از قلم: احمد رضا عطاری مدنی ۔
جامعۃ المدینہ گلزار حبیب، سبزہ زار، لاہور۔
24 April 2024